ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست
ہندو ہیں بت پرست مسلماں خدا پرست
پوجوں میں اس کسی کو جو ہو آشنا پرست
اس دور میں گئی ہے مروت کی آنکھ پھوٹ
معدوم ہے جہان سے چشم حیا پرست
دیکھا ہے جب سے رنگ کفک تیرے پاؤں میں
آتش کو چھوڑ گبر ہوئے ہیں حنا پرست
چاہے کہ عکس دوست رہے تجھ میں جلوہ گر
آئینہ دار دل کو رکھ اپنے صفا پرست
آوارگی سے خوش ہوں میں اتنا کہ بعد مرگ
ہر ذرہ میری خاک کا ہوگا ہوا پرست
خاک فنا کو تاکہ پرستش تو کر سکے
جوں خضر مست کھائیو آب بقا پرست
سوداؔ سے شخص کے تئیں آزردہ کیجیے
اے خود پرست حیف نہیں تو ہوا پرست
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |