ہندی اردو کا جھگڑا
شری رام شرما صاحب ہندی کے مشہور ماہانہ رسالہ وشال بھارت کے ایڈیٹر ہیں۔ یہ ہندی اردو دونوں زبانوں میں دست گاہ رکھتے ہیں۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ ’’میں نے بھی اردو ہی پڑھی تھی، ہندی تو مجھے ویسے ہی آ گئی۔‘‘ ادبی لیاقت کے علاوہ ان میں رواداری بھی بہت ہے۔ ہندو مسلم ملاپ کے بڑے حامی ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں اپنے رسالے میں ایک مضمون زبان اور رسم خط کے مسئلہ پر لکھا ہے۔ مضمون کے شروع میں انھوں نے اپنے پچھلے مہینے کے ایک نوٹ ’’اصلی اور فروعی مسئلے‘‘ سے ایک اقتباس دیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں،
’’بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہندو مسلم اختلاف کی جڑ میں بھاشا کا سوال ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں ہندوؤں کی طرف سے بدگمانی ہے۔ اس لیے ان کی یہ رائے ہے کہ ہندی، اردو کا جھگڑا مٹانے کے لیے ’’ہندوستانی‘‘ پر زور دیا جائے اور یک ساں زبان کے لیے کوشش کی جائے تو سب مشکلیں دور ہو جائیں گی۔ ہم ہندی اردو کے جھگڑے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اگر دونوں کا ایک رسم خط ہو جائے تو یہ جھگڑا بہت کچھ ہٹ جائے گا لیکن ہم اپنے بہکے ہوئے دوستوں سے پوچھتے ہیں کہ ڈھاکہ اور احمد آباد میں تو بھاشا کا کوئی جھگڑا نہ تھا پھر وہاں فرقہ وارانہ جھگڑے کیوں ہو گئے؟ ملک کی غلامی ہماری اصل مصیبت ہے۔ ہماری تقریباً تمام بلاؤں کا سرچشمہ یہی ہے۔ اگر ہمیں اس سے نجات مل گئی تو یہ فروعی جھگڑے اپنے آپ مٹ جائیں گے۔ جب جھگڑوں کی سوت سوکھ جائے گی تو زبان کے زہر کا نالہ خود ہی سوکھ جائےگا۔‘‘
اس اقتباس میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ زبان کو ہندو مسلمانوں کے اختلاف میں کوئی زیادہ دخل نہیں۔ دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ ڈھاکہ اور احمدآباد میں فساد کیوں ہوئے وہاں تو زبان کا کوئی جھگڑا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ فساد کی جڑ ملک کی غلامی ہے، اگر اس سے نجات مل جائے تو سب جھگڑے مٹ جائیں گے۔ تیسری بات یہ کہ دونوں (یعنی اردو ہندی) کا ایک رسم خط ہوجائے تو زبان کا کوئی جھگڑا نہیں رہےگا۔
پہلی بات کے متعلق یہ عرض ہے کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہندو مسلم اختلاف کی جڑ میں زبان کا سوال ہے، انھوں نے ملک کی حالت کا بہت صحیح اندازہ کیا ہے اور وہ ہندو مسلم اختلاف کی حقیقت سے پورے طور پر واقف ہیں۔ اس کے برخلاف احمد آباداور ڈھاکہ کو جو ثبوت میں پیش کیا گیا ہے، وہ ایک بھولے پن کی بات ہے اور کسی بچے کے منھ سے نکلتی تو تعجب نہ ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحبوں نے ہندو مسلم نزاع کے اسباب پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور نہ کبھی ملک کے مختلف علاقوں میں سفر کر کے وہاں کے حالات کو گہری نظر سے دیکھا ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ جن مقامات کی مادری زبان اردو نہیں یا جہاں اردو کا رواج کم ہے وہاں والوں کے دل میں اردو کا جو احترام ہے، وہ ان لوگوں میں نہیں پایا جاتا جن کی مادری زبان اردو ہے۔
وہ اسے ایک طرح کی مقدس زبان خیال کرتے ہیں اور جب وہ یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ اردو زبان کی مخالفت کی جا رہی ہے اور اس کے مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو ان کے دلوں میں مخالفت اور نفرت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے اور صحیح یا غلط وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اردو کے مٹانے کی کوششیں نہیں بلکہ ان کی تہذیب اور مذہب کو مٹانے کی تجویزیں ہیں اور احمد آباد اور ڈھاکہ کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ بھی صحیح نہیں کیوں کہ ان مقامات میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے اور ان سے کہیں زیادہ ایسے ہیں جو اردو جانتے اور بولتے ہیں۔
غلامی کا جو اتار پھینکنے کا خیال بہت خوب ہے اور کوئی معقول شخص اس سے اختلاف نہیں کر سکتا اور یہ بھی صحیح ہے کہ جب ایک بار غلامی سے نجات مل گئی تو سب فروعی جھگڑے مٹ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ غلامی سے نجات کیوں کر ملے اور وہ کیا طریقہ ہے جو ہمیں اس سے نجات دلاسکتا ہے؟ کیا اس مقصد کے حاصل کرنے کے یہی ڈھنگ ہیں جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً ہر معاملے میں جھگڑا اور ہر مسئلے میں اختلاف اور بجائے اس کے کہ ان جھگڑوں کو کم کیا جائے، ان کو بڑھانے اور اکسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر یہی لچھن ہیں تو کوئی توقع نہیں کہ غلامی کا طوق ہماری گردنوں سے اتر جائے۔
یہ سچ ہے کہ ہم فروعی مسائل میں الجھے رہتے ہیں اور اصل کی طرف پوری توجہ نہیں کرتے اور بہ قول شرما صاحب کے ہندی اردو کا جھگڑا بھی فروعی مسائل میں سے ہے اور صحیح یہ ہے کہ جڑ اگر مضبوط رہی تو شاخیں اور تنے اور سارا درخت سرسبز اور شاداب رہےگا لیکن انھیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب فروعی جھگڑے شدت پکڑ جاتے ہیں تو وہی رفتہ رفتہ اصل ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ یہی نہیں ہوتا کہ جڑ کے کھوکھلے ہونے سے درخت بےکار ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنے کی چھال اتار لینے سے درخت کا پنپنا بند ہو جاتا ہے اور وہ ٹھنٹھ ہوکے رہ جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی سے اور ہمارے رہ نماؤں کی غلطیوں سے اردو ہندی کا جھگڑا اب فروعی مسائل میں سے نہیں رہا، اصل مسئلہ ہو گیا ہے۔
اس کے بعد وشال بھارت کے قابل ایڈیٹر نے اس جھگڑے کی اصل حقیقت پر نظر ڈالی ہے اور یہ سوال کیا ہے کہ ہندی اردو کا جھگڑا کہاں اور ان صوبوں میں ہے؟ اس کا جواب انھوں نے کسی قدر تفصیل سے دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنگال، آسام، گجرات، مدراس، اڑیسہ، سندھ، مہاراشٹر، کرناٹک اور ملیبار میں ہندی اردو کا کوئی جھگڑا نہیں۔ اب رہے سرحد، پنجاب، یوپی، بہار اور سی پی کے صوبے تو ان میں بھی صرف یوپی اور پنجاب ایسے دو صوبے ہیں جو ہندی اردو جھگڑے کا اکھاڑہ بنے ہوئے ہیں۔ بہار میں اردو کی کوئی حیثیت نہیں۔ مختصر یہ کہ یوپی کے صرف چند فی صدی شہری لوگ اردو بولتے ہیں۔ پنجاب میں پنجابی بولی جاتی ہے اور رسم خط اردو، ہندی، گورمکھی تینوں رائج ہیں، لہٰذا جھگڑا ہے تو انہی دو صوبوں میں۔
کیا اچھا تبصرہ اور فیصلہ ہے۔ بہار کو صرف ایک فقرے میں اڑا دیا ہے کہ وہاں اردو کی کوئی اہمیت نہیں۔ حالانکہ ہندی اردو جھگڑے کی ابتدا وہیں سے ہوئی اور اب تک جاری ہے۔ بہار کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں ایک کثیر آبادی ایسی ہے جس کی زبان اردو ہے۔ عظیم آباد، پٹنہ اردو زبان وادب کا ایسا ہی مشہور اور بڑا مرکز تھا، جیسے دلی اور لکھنؤ۔ بہار نے اردو کے ایسے نام ور ادیب اور شاعر پیدا کیے ہیں جو اردو ادب کی تاریخ میں یادگار رہیں گے۔ اردو کو تو خیر سری شرما نے یوپی کے شہروں کے چند ہزار (زیادہ سے زیادہ چند لاکھ) نفوس تک محدود رکھا ہے لیکن ہم ان سے باادب یہ پوچھتے ہیں کہ وہ نئی ہندی جس کے پرچار کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جارہے ہیں، وہ کس علاقے، کس شہر اور قصبے اور کس گاوں کی بولی ہے؟ اور اس کے بولنے والے کس دیس میں بستے ہیں؟
وہ اردو کو ہندی یا ہندی کی بعض شاخوں کی طرح مقامی خیال کرتے ہیں، حالانکہ یہ بات نہیں ہے۔ اردو ایک سرسے لے کر دوسرے سرے تک سارے ہندوستان پرچھائی ہوئی ہے۔ صوبہ سرحد، سندھ، خاندیس، کرناٹک، دھاروار، گجرات، سی پی اور مدراس میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں کی مادری زبان اردو ہے اور ان مقامات میں بے شمار لوگ ایسے آباد ہیں جو اردو جانتے، بولتے اور لکھتے ہیں جس کی تفصیل میں اپنے دوروں کے ضمن میں بیان کر چکا ہوں۔ ان میں کے بعض مقام اردو زبان کے مرکز رہے ہیں اور قریب قریب ان میں سے ہر مقام میں اردو اخبار جاری ہیں اور شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔
شرما صاحب نے ہندی اردو جھگڑے کو صرف یوپی اور پنجاب تک محدود کر دیا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ اردو کی وسعت غیر محدود ہے اور وہ ایک طرح سے کل ہند زبان ہے اور جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں جن مقامات کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو نہیں یا جہاں اردو کا رواج نسبتاً کم ہے، وہاں کے مسلمان اردو کو ہم سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب اردو کو ذرا سی بھی ٹھیس لگتی ہے تو وہ بے چین ہو جاتے ہیں۔
بے شک ایک زمانے میں ہندی اردو کا جھگڑا مقامی جھگڑا تھا لیکن جب سے گاندھی جی نے اس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ہندی کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور یہ اعلان کیا کہ وہ ہندی کو ملک کی مشترکہ زبان بنا کے چھوڑیں گے، اسی وقت سے سارے ملک میں ایک آگ سی لگ گئی اور فرقہ واری عناد اور فساد کی مستحکم بنیاد پڑ گئی۔ کانگریس گورنمنٹ نے جو اصل میں مہاتما کی حکومت تھی، اس جلتی ہوئی آگ پر خوب تیل چھڑکا۔ اس معاملے میں حکومت کے بعض وزرا اور معزز ارکان کانگریس گورنمنٹ کے وزیر یا کانگریس کے ممبر نہیں رہے تھے بلکہ وہ ہندی زبان کے مشنری بن گئے تھے اور کانگریس کے گزشتہ فیصلوں اور قراردادوں اور کانگریس کے آئین کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔
کانگریس گورنمنٹ نے اس جھگڑے کو اور بڑھایا اور پھیلایا اور ترقی دی۔ کیونکہ کانگریس کی آواز مہاتما کی آواز تھی اور مہاتما کی آواز اہل کانگریس اور کروڑوں عوام کے لیے بہ منزلۂ الٰہی آواز کے تھی۔ مہاتما گاندھی نے (خدا ان کو نیک ہدایت دے) اس معاملے میں ملک کے حق میں ایسے کانٹے بوئے ہیں اور وہ بِس پھیلایا ہے اور مختصر یہ کہ وہ کام کیا ہے جو اس ملک کا بڑا سے بڑا اور سخت سے سخت دشمن بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ہم ملک کی ابتری اور آئے دن کے جھگڑوں اور اختلافات کے لیے غیروں کو الزام دیتے ہیں مگر اپنے گریبان میں منھ ڈال کر کبھی نہیں دیکھتے۔
ہندو مسلمانوں میں جس چیز نے سب سے زیادہ بدگمانی، نفرت اور باہمی عناد کو بڑھایا وہ ہندی اردو کا جھگڑا ہے اور اس جھگڑے کے بانی اعظم ’’مہاتما‘‘ گاندھی ہیں۔ میں یہاں پنڈت سندر لال کی تقریر کے دو ایک فقرے نقل کرتا ہوں، ’’اردو ایک ہندوستانی زبان رہی ہے جسے ہندوؤں مسلمانوں نے مل کر بنایا اور ترقی دی اور اب بھی صوبہ متحدہ کے بہت سے ضلعوں میں، شہروں اور دیہات ہر جگہ کے ہندو اردو ہی بولتے ہیں اور موجودہ زمانے کی سنسکرت آمیز ہندی نہیں سمجھ سکتے۔۔۔ اس سنسکرت آمیز ہندی کو قومی زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کی کوشش نہ صرف ہندی کے لیے بلکہ قومی اتحاد کے لیے سخت مضر ہے۔۔۔ اس کوشش نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج پیدا کرنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔‘‘ پنڈت جی کا یہ قول حرف بہ حرف درست ہے۔
اردو رسم خط کے متعلق شرما صاحب فرماتے ہیں کہ ’’علمی بحثا بحثی میں اردو لیپی (رسم خط) خود ہی مرےگی، اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنا مَرے کو مارے شاہ مدار کا حکم رکھتا ہے۔‘‘ یہ کلمہ بڑے غرور کا ہے اور ایسے بڑے بول صرف اکثریت کا غرور ہی بلوا سکتا ہے۔ زبان اور تہذیب کے مسائل، تعداد کی کمی بیشی، اوسط اور فی صدی کے حساب سے طے نہیں ہوا کرتے۔ اس کے لیے کسی قدر رواداری، ہم دردی اور انصاف کی بھی ضرورت ہے۔ اردو کا رسم خط ہندی کی طرح صرف ہندوستان کے ایک آدھ علاقے تک محدود نہیں بلکہ یہ ہندوستان کے باہر بھی بہت سے ملکوں میں رائج ہے۔ کہاں کہاں مٹائیں گے۔ یہاں یہ رسم خط اردو کی پیدائش کے ساتھ ساتھ آیا ہے۔ اس کا مٹانا آسان نہیں۔
ہندوستان میں ایک دو رسم خط نہیں بیسیوں ہیں۔ سب سے پہلے بنگالی، تامل، تلنگی، کنڑی، ملیالم وغیرہ زبانوں کو یہ مشورہ دینا چاہیے جن کی نسبت یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ سنسکرت سے بہت قریب بلکہ سنسکرت کے بچے ہیں۔ اس کے بعد اردو کی باری آئے گی۔ خطوں کے بدلنے سے دل نہیں بدلتے۔ اول دلوں کے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لیے جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے رواداری، ہم دردی اور انصاف کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے بڑے شخص نے سب سے زیادہ دلوں کے بدلنے کا پرچار کیا اور اس کے لیے دعائیں مانگیں مگر افسوس کہ اس نے دلوں کو ایسا بدلا ہے کہ فی الحال ان کے ملنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
زبان کا مسئلہ معمولی نہیں، اس پر ہاتھ ڈالنا بہت خطرناک ہے۔ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جہاں کہیں ایسا کیا گیا وہاں صرف ناکامی ہی نہیں اٹھانی پڑی بلکہ اس کے ساتھ بہت سی بلائیں اور آفتیں نازل ہوئیں اور انقلاب رونما ہوئے اور باوجود شدید مظالم اور عذابوں کے زباں بندی اور نظربندی اور قانونی شکنجوں کے، ظالم مظلوں کی اور زبردست زیر دستوں کی زبانوں کو نہ مٹا سکے۔ برخلاف اس کے یہ ظلم اور عذاب اور سختیاں ان زبانوں کی ترقی کا باعث ہوئیں۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |