ہند کے جاں باز سپاہی

ہند کے جاں باز سپاہی
by برق دہلوی
304457ہند کے جاں باز سپاہیبرق دہلوی

سر بکف ہند کے جاں باز وطن لڑتے ہیں
تیغ نو لے صف دشمن میں گھسے پڑتے ہیں
ایک کھاتے ہیں تو دو منہ پہ وہیں جڑتے ہیں
حشر کر دیتے ہیں برپا یہ جہاں اڑتے ہیں
جوش میں آتے ہیں دریا کی روانی کی طرح
خون دشمن کا بہا دیتے ہیں پانی کی طرح

جب بڑھاتے ہیں قدم پیچھے پھر ہٹتے ہی نہیں
حوصلے ان کے جو بڑھتے ہیں تو گھٹتے ہی نہیں
دم پیکار حریفوں سے یہ کٹتے ہی نہیں
الٹے قدموں پہ بلا فتح پلٹتے ہی نہیں
ہیچ ہیں ان کے لیے آہنی دیواریں بھی
روک سکتی نہیں فولاد کی دیواریں بھی

جذبۂ حب وطن دل میں نہاں رکھتے ہیں
مثل خوں جوش یہ رگ رگ میں رواں رکھتے ہیں
سر ہتھیلی پہ تو قبضے میں سناں رکھتے ہیں
آنکھ جھپکانے کی بھی تاب کہاں رکھتے ہیں
نکلی ہی پڑتی ہیں خود میان سے تیغیں ان کی
ڈھونڈھتی اپنا مقابل ہیں نگاہیں ان کی

کھنچ کے دشمن سے گلے تیغ رواں ملتی ہے
دم دفنا کرنے کو غارت گر جاں ملتی ہے
خون کا بہتا ہے دریا یہ جہاں ملتی ہے
موت کی گود میں دشمن کو اماں ملتی ہے
تیغ کے گھاٹ اترتا ہے مقابل ان کا
رن میں پانی بھی نہیں مانگتا بسمل ان کا

وار بھولے سے بھی پڑتا نہیں اوچھا ان کا
ہاتھ ہوتا ہے زباں کی طرح سچا ان کا
جس نے دیکھا کبھی منہ دیکھا نہ پیچھا ان کا
موت بھی مانتی ہے رزم میں لوہا ان کا
رن میں بپھرے ہوئے شیروں کی طرح لڑتے ہیں
صاف کر دیتے ہیں جس صف پہ یہ جا پڑتے ہیں

منہ پہ تلوار کی چڑھتے ہیں سپر کی صورت
تیغ کے پھل کو یہ کھاتے ہیں ثمر کی صورت
حوصلے اور بڑھاتی ہے خطر کی صورت
موت میں بھی نظر آتی ہے ظفر کی صورت
چھلنی ہو جاتا ہے زخموں سے اگر تن ان کا
تیغ کے سایہ میں بن جاتا ہے مدفن ان کا

رزم کو بزم سمجھتے ہیں یہ مردان وطن
شاہد مرگ ہے ان کے لیے چوتھی کی دلہن
یہ وہ سر باز ہیں رکھتے ہیں بہم تیغ و کفن
ہاتھ دکھلاتے ہیں جب پڑتا ہے گھمسان کا رن
ان کی شمشیر دو پیکر پہ ظفر صدقے ہے
ان کا برطانیہ کے نام پہ سر صدقے ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.