ہنگامہ خیز دعوئ منصور ہو گیا
ہنگامہ خیز دعوئ منصور ہو گیا
لب ہم نوائے خاطر مغرور ہو گیا
بزم خیال یار میں ہے محو آرزو
مجھ سے مرا خیال بہت دور ہو گیا
مٹنا تھا کب تراوش زخم جگر کا رنگ
ہاں رستے رستے زخم سے ناسور ہو گیا
تھا جلوہ گاہ یار مرا دامن نگاہ
جس ذرہ پر نگاہ پڑی طور ہو گیا
بس اے سکون یاس زیادہ ستم نہ کر
وہ اضطراب شوق تو کافور ہو گیا
ناکامیٔ ازل کی ستم رانیاں نہ پوچھ
میں اپنے اختیار سے مجبور ہو گیا
اف اضطراب شوق کی حسرت فروشیاں
حسن حیا پرست بھی مجبور ہو گیا
میں اور یہ سر نوشت ملامت کی جا نہیں
میں اس کے انتخاب سے مجبور ہو گیا
ہنگامہ ہائے غلغلۂ ما و من نہ پوچھ
بیخودؔ بھی اپنے عہد کا منصور ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |