ہنگام نزع گریہ یہاں بے کسی کا تھا
ہنگام نزع گریہ یہاں بے کسی کا تھا
تم ہنس پڑے یہ کون سا موقع ہنسی کا تھا
اٹھا نہ میری گور سے دشمن بھی بیٹھ کر
کیا عالم آج ہائے مری بیکسی کا تھا
چھایا ہے آسماں کی طرح قبر غیر پر
دل میں مرے غبار بھرا جو کبھی کا تھا
دل نے مجھے خراب کیا کوئے یار میں
دشمن پر اعتبار مجھے دوستی کا تھا
صحرا میں پھر رہے تھے سلیماں بنے ہوئے
جس کو جنون کہتے ہیں سایہ پری کا تھا
دکھ جائے گا دل اس لئے جاری ہوئے نہ اشک
دیکھو تو پاس نزع میں کتنا کسی کا تھا
یہ اپنی وضع اور یہ دشنام سے فروش
سن کر جو پی گئے یہ مزا مفلسی کا تھا
جس انجمن میں بیٹھ گیا رونق آ گئی
کچھ آدمی ریاضؔ عجب دل لگی کا تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |