ہوئی سرگشتہ خاک اپنی غبار کارواں ہو کر
ہوئی سرگشتہ خاک اپنی غبار کارواں ہو کر
مجھے قسمت ستاتی ہے رقیب کامراں ہو کر
دل پژمردہ عاشق کو تم اپنے سامنے رکھنا
تماشا رقص بسمل کا دکھائے گا تپاں ہو کر
ہمارے اس دل ویراں شدہ میں اے بت رعنا
تمہاری آرزو گھبرا رہی ہے میہماں ہو کر
اڑایا تیزئ باد صبا نے گر تو غم کیا ہے
غبار اپنا بلندی پر رہے گا آسماں ہو کر
مرے دل کی عمارت گو شکستہ حال ہے لیکن
مکان خاص ہو جائے گا اس کا لا مکاں ہو کر
انیس و مونس و ہمدم امیدیں ہو نہیں سکتیں
کہاں جاتا ہے اے دل یوسف بے کارواں ہو کر
کریں کیا گفتگو آنکھیں ملا کر ان رقیبوں سے
تمہاری بزم میں بت بن گئے ہیں بے زباں ہو کر
ہمارے دیدۂ حیرت زدہ میں خواب کیا آئے
کہ تیری آرزو بیٹھی ہے اس میں پاسباں ہو کر
لگانا وار ہلکا قتل گہہ میں مجھ پہ اے قاتل
کہ لطف رقص بسمل میں دکھاؤں نیم جاں ہو کر
مری کاہیدگی اور ناتوانی پوچھتے کیا ہو
غم ہجراں دباتا ہے مجھے بار گراں ہو کر
خدا کے فضل سے اس بوستان نعت مدحت میں
جمیلہؔ نغمہ زن ہے بلبل خوش داستاں ہو کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |