ہوئی شکل اپنی یہ ہم نشیں جو صنم کو ہم سے حجاب ہے
ہوئی شکل اپنی یہ ہم نشیں جو صنم کو ہم سے حجاب ہے
کبھی اشک ہے کبھی آہ ہے کبھی رنج ہے کبھی تاب ہے
ذرا در پہ اس کے پہنچ کے ہم جو بلاویں اس کو تو دوستو
کبھی غصہ ہے کبھی چھیڑ ہے کبھی حیلہ ہے کبھی خواب ہے
جو اس انجمن میں ہیں بیٹھتے تو مزاج اس کے سے ہم کو واں
کبھی عجز ہے کبھی بیم ہے کبھی رسم ہے کبھی داب ہے
وہ ادھر سے جا کے جو آتا ہے اسے دونوں حال سے دل میں یاں
کبھی سوچ ہے کبھی فکر ہے کبھی غور ہے کبھی تاب ہے
جو وہ بعد بوسہ کے ناز سے ذرا جھڑکے ہے تو نظیرؔ کو
کبھی مصری ہے کبھی قند ہے کبھی شہد ہے کبھی راب ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |