ہوئے ہیں جا کے عاشق اب تو ہم اس شوخ چنچل کے
ہوئے ہیں جا کے عاشق اب تو ہم اس شوخ چنچل کے
ستم گر بے مروت بے وفا بے رحم اچپل کے
غزالوں کو تری آنکھیں سے کچھ نسبت نہیں ہرگز
کہ یہ آہو ہیں شہری اور وے وحشی ہیں جنگل کے
گرفتاری ہوئی ہے دل کو میرے بے طرح اس سے
کہ آئے پیچ میں کہتے ہی ان کی زلف کے بل کے
یہ دولت مند اگر شب کو نہیں یارو تو پھر کیا ہے
کہ ہیں یہ چاندنی راتوں کو بھی محتاج مشعل کے
تمہارے درد سر سے صندلی رنگو اگر جی دوں
تو چھاپے قبر پر دینا مری تم آ کے صندل کے
کوئی اس کو کہے ہے دام کوئی زنجیر کوئی سنبل
ہزاروں نام ہیں کافر تری زلف مسلسل کے
بیاباں بن ہمیں الفت نہیں ہے شہر سے ہرگز
طرح مجنوں کے تاباںؔ ہم تو دیوانے ہیں جنگل کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |