ہوا چلی
by اسماعیل میرٹھی

ہونے کو آئی صبح تو ٹھنڈی ہوا چلی
کیا دھیمی دھیمی چال سے یہ خوش ادا چلی

لہرا دیا ہے کھیت کو ہلتی ہیں بالیاں
پودے بھی جھومتے ہیں لچکتی ہیں ڈالیاں

پھلواریوں میں تازہ شگوفے کھلا چلی
سویا ہوا تھا سبزہ اسے تو جگا چلی

سر سبز ہوں درخت نہ باغوں میں تجھ بغیر
تیرے ہی دم قدم سے ہے بھاتی چمن کی سیر

پڑ جائے اس جہان میں تیری اگر کمی
چوپایہ کوئی زندہ بچے اور نہ آدمی

چڑیوں کو یہ اڑان کی طاقت کہاں رہے
پھر کائیں کائیں ہو نہ غٹرغوں نہ چہچہے

بندوں کو چاہیے کہ کریں بندگی ادا
اس کی کہ جس کے حکم سے چلتی ہے یہ سدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse