ہوا ہے طور بربادی جو بے دستور پہلو میں
ہوا ہے طور بربادی جو بے دستور پہلو میں
دل بے تاب کو رہتا ہے نامنظور پہلو میں
عجب دل کو لگی ہے لو عجب ہے نور پہلو میں
کیا ہے عشق نے روشن چراغ طور پہلو میں
کہا جو میں نے میرے دل کی اک تصویر کھنچوا دو
منگا کر رکھ دیا اک شیشہ چکناچور پہلو میں
خوشی ہو ہو کے الفت میں جو بار غم اٹھاتا ہے
دل شیدا ہے یا ہے عشق کا مزدور پہلو میں
ہوس ہے دل کو تیرے ہاتھ سے مجروح ہونے کی
لگا دے اک چھری اے قاتل مغرور پہلو میں
ہم آغوشی سے جب سے یار نے پہلو تہی کی ہے
اسی دن سے ہوئی ہے بے کلی مامور پہلو میں
تری تصویر جب میں ڈھونڈنے اٹھتا ہوں جنت میں
بٹھا لیتی ہے منت کر کے مجھ کو حور پہلو میں
تڑپ جاتا ہے دل تیری جدائی یاد آتی ہے
چمک جاتا ہے یارب کس پری کا نور پہلو میں
تصدق تجھ پہ جس دم نجد میں ہو جائے گا مجنوں
جگہ دے گا ترا دیوانۂ مغفور پہلو میں
خدنگ ناز کی آمد پر آمد اس میں رہتی ہے
یہ باب دلکشا ہے یا کہ ہے ناسور پہلو میں
الٰہی میرے اس کے وہ ہم آغوشی کی صورت ہو
کہ جیسے دل کی ہے پیچیدگی مشہور پہلو میں
ہوا اس درجہ غلبہ اس پہ ٹھنڈی ٹھنڈی سانسوں کا
کہ آخر دل ہمارا ہو گیا کافور پہلو میں
نئی تیر لب معشوق نے کی رخنہ پردازی
تسلط تو کیا دل میں ہوا ناسور پہلو میں
برابر اپنے بیٹھے دیکھا ہے یوسف کو رویا میں
خدا چاہے تو آ بیٹھے وہ رشک حور پہلو میں
مسلم اس کے ہونے کی شرفؔ تدبیر بتلاؤ
پڑا ہے مدتوں سے شیشۂ دل چور پہلو میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |