ہوتی ہے طبیعت ہی خدا داد کسی کی
ہوتی ہے طبیعت ہی خدا داد کسی کی
الفت میں وفائیں نہیں ایجاد کسی کی
ناکام پھری عرش سے فریاد کسی کی
کس در سے امیدیں ہوئیں برباد کسی کی
اللہ رے پابندیٔ آداب محبت
فریاد بھی گویا نہیں آزاد کسی کی
آ اے غم دوراں تجھے سینہ سے لگا لوں
بھولے سے بھی آتی نہیں اب یاد کسی کی
عنوان محبت ہے نگاہ غلط انداز
مستغنیٔ تمہید ہے روداد کسی کی
مٹتے ہوئے اس طرح کسی کو نہیں دیکھا
جس طرح سے ہستی ہوئی برباد کسی کی
افسانۂ فرہاد کی تمہید اٹھائی
ہم راز مگر کہہ گیا روداد کسی کی
گستاخ تمناؤں نے کیا چھیڑ دیا ہے
شرمائی ہوئی دل میں ہے کیوں یاد کسی کی
کس درد بھرے دل کی منیرؔ آہ صدا ہے
اک پیکر بیتاب ہے فریاد کسی کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |