ہوتے خدا کے اس بت کافر کی چاہ کی
ہوتے خدا کے اس بت کافر کی چاہ کی
اتنی تو بات مجھ سے ہوئی ہے گناہ کی
سوز دروں کیا جو مرا شمع نے بیاں
جل کر زبان کاٹ لی میرے گواہ کی
بھرتا ہے آج خوب طرارے سمند ناز
قمچی ہے ان کے ہاتھ میں زلف سیاہ کی
دیکھا حضور کو جو مکدر تو مر گئے
ہم مٹ گئے جو آپ نے میلی نگاہ کی
فرقت میں یاد آئے جو لطف شب و صال
اک آہ بھر کے جانب گردوں نگاہ کی
سنسان کر دیا مرے پہلو کو لے کے دل
ظالم نے لوٹ کر مری بستی تباہ کی
وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں اشاروں میں دیکھنا
سب تاڑ جائیں گے سر محفل جو آہ کی
ہم وہ تھے دل ہی دل میں کیا ضبط راز عشق
صدمے اٹھا کے مر گئے منہ سے نہ آہ کی
افسوس ہے کہ میں تو پھروں در بدر خراب
تم کو خبر نہ ہو مرے حال تباہ کی
جوہرؔ خدا کے فضل سے ایسی غزل کہی
شہرت مشاعرہ میں ہوئی واہ واہ کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |