ہوس گل زار کی مثل عنادل ہم بھی رکھتے تھے
ہوس گل زار کی مثل عنادل ہم بھی رکھتے تھے
کبھی تھا شوق گل ہم کو کبھی دل ہم بھی رکھتے تھے
قضا بھی تیرے ہاتھوں چاہتے تھے تجھ کو کیا کیجے
نہیں تو تیغ دم کے ساتھ قاتل ہم بھی رکھتے تھے
خطائے عشق پر ہم پر نہ اتنا بھی ستم ڈھاؤ
اگر چاہا تو چاہا کیا ہوا دل ہم بھی رکھتے تھے
خدا کو علم ہے زندہ ہے یا جل بھن گیا شب کو
دل اپنا تیرے پروانوں میں شامل ہم بھی رکھتے تھے
مری جاں بازیوں پر گور میں رستم یہ کہتا ہے
نہ تھے ایسے جری گو شیر کا دل ہم بھی رکھتے تھے
علاقہ عشق کا لیتے یہ سوچے ہوں گے بربادی
وگرنہ نقد جان و سکۂ دل ہم بھی رکھتے تھے
خدا کے سامنے ہوگی جو پرسش عشق بازوں کی
کہیں گے ہم بھی اتنا عشق کامل ہم بھی رکھتے تھے
تمنا تھی ہمیں بھی تیری صحبت دیکھ لینے کی
کہ پروانے تھے شوق و ذوق محفل ہم بھی رکھتے تھے
بڑے عقدہ کشا تھے تم تو حل اس کو بھی کرنا تھا
مہم عشق سر کرنے کی مشکل ہم بھی رکھتے تھے
تلاش یار میں خفیہ گئے عشاق دنیا سے
خبر بھی کی نہ ہم کو شوق منزل ہم بھی رکھتے تھے
کوئی لحظہ جدائی میں تڑپنے سے نہ فرصت تھی
کبھی پہلو میں دل مانند بسمل ہم بھی رکھتے تھے
جنوں کا زور تھا دل میں جگہ کر لی تھی وحشت نے
غرض پیش نظر لیلیٰ و محمل ہم بھی رکھتے تھے
جگہ دل کی طرح پہلو میں دی ہوتی ہمیں تم نے
لیاقت اس سرافرازی کے قابل ہم بھی رکھتے تھے
اسے کیوں کر نہ کہتے ہم کہ یکتا ہے خدائی میں
شناسا تھے تمیز حق و باطل ہم بھی رکھتے تھے
خدا نے جان چھڑوائی شرفؔ وہ خود بگڑ بیٹھا
حقیقت میں عجب معشوق جاہل ہم بھی رکھتے تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |