ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا
ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا
بہت جہان میں ڈھونڈھا پر آشنا نہ ملا
ہوا ہے کون سا معشوق با وفا اے دل
گلا عبث ہے اگر وہ ملا ملا نہ ملا
عجیب قسمت بد تھی شب فراق میں ہم
کمال ڈھونڈھ پھرے خانۂ قضا نہ ملا
نہ دے تو ہاتھ سے ہوں ضعف سے میں رنگ حنا
ہواے شوق فنا میں جہاں اڑا نہ ملا
جواب دے گی بھلا روز باز پرس تو کیا
اڑا اڑا کے ہمیں خاک میں صبا نہ ملا
وہ کشتہ نگہ قہر تھا کہ محشر میں
مرے جلانے کو احکام دل ربا نہ ملا
غریق بحر ستم عمر کی ہوئی کشتی
بہت سا ہم نے پکارا پہ نا خدا نہ ملا
کمال و عیش و جوانی و ملک و مال و طرب
یہ سب ملے ہمیں پر یار با وفا نہ ملا
عجیب جوش جنوں میں ہوئی تھی پامالی
کہ ایک آبلہ تک دوست دار پا نہ ملا
چبھے ہزار تمنا سے کیوں نہ بے کھٹکے
کہ خار کو کوئی ہم سا برہنہ پا نہ ملا
بہت سی کرتے رہے باغ دہر میں گل گشت
پر اپنے بلبل دل کو نسیمؔ سا نہ ملا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |