ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی
ہوش آتے ہی حسینوں کو قیامت آئی
آنکھ میں فتنہ گری دل میں شرارت آئی
کیا تصور ہے نہایت مجھے حیرت آئی
آئنے میں بھی نظر تیری ہی صورت آئی
اس ادا سے دم رفتار قیامت آئی
ایسے ہم کیوں نہ ہوئے ان کو یہ حسرت آئی
روز محشر جو مری داد کی نوبت آئی
یہ گئی وہ گئی کب ہاتھ قیامت آئی
اب اسی پر تو ہے تاکید وفاداری کی
جب گیا جان سے میں غیر کی شامت آئی
کہہ گئے طعن سے وہ آ کے مرے مرقد پر
سونے والے تجھے کس طرح سے راحت آئی
بن سنور کر جو وہ آئے تو یہ میں جان گیا
اب گئی جان گئی آئی طبیعت آئی
رکھ دیا منہ پہ مرے ہاتھ شب وصل اس نے
بے حجابی کے لیے کام شکایت آئی
جب یہ کھاتا ہے مرا خون جگر کھاتا ہے
دل بیمار کو کس چیز پہ رغبت آئی
گرچہ از حد ہوں گنہ گار مسلمان تو ہوں
پیچھے پیچھے مرے دوزح میں بھی جنت آئی
میں ہوا شیفتہ ان پر وہ عدو پر شیدا
ساتھ کے ساتھ ہی دونوں کی طبیعت آئی
عمر بھر اس کو کلیجے سے لگائے رکھا
تیرے بیمار کو جس درد میں لذت آئی
ہجر میں جان نکلتی نہیں کیا آفت ہے
مار کر آج اجل کو شب فرقت آئی
اپنے دیوانوں کو دیکھا تو کہا گھبرا کر
یہ نئی وضع کی کس ملک سے خلقت آئی
جذب دل کھینچ ہی لایا انہیں میرے در تک
پاؤں پڑتی ہوئی ہرچند نزاکت آئی
یوں تو پامال ہوئے سیکڑوں مٹنے والے
پہلے گنتی میں جو آئی مری تربت آئی
حشر کا وعدہ بھی کرتے نہیں وہ کہتے ہیں
فرض کر لو جو کئی بار قیامت آئی
داغؔ گھبراؤ نہیں اب کوئی دم کے دم میں
لو مبارک ہو ترقی کی بھی ساعت آئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |