ہو ترک کسی سے نہ ملاقات کسی کی
ہو ترک کسی سے نہ ملاقات کسی کی
یا رب نہ بگڑ جائے بنی بات کسی کی
پاؤں کو جو پھیلا کے سر شام سے سوئے
کیا جانے وہ کس طرح کئی رات کسی کی
فرمائیے کیوں کر وہ سہے آپ کی گالی
اٹھ سکتی نہ ہو جس سے کڑی بات کسی کی
فرمائشیں تم روز کرو شوق سے لیکن
یہ جان لو تھوڑی سی ہے اوقات کسی کی
ممکن ہے کہ سمجھے نہ حفیظؔ آپ کی چالیں
شاعر سے بھی چلتی ہے کہیں گھات کسی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |