ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر

ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر
by ولی اللہ محب

ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر
کہتا ہوں میں بھی تجھ سے اے با وفا وفا کر

بیت الصنم میں جا کر ہمدم بہ رب کعبہ
لایا ہوں اس صنم کو گھر تک خدا خدا کر

گوہر جو اشک کے ہیں کچھ چشم کے صدف میں
غلطاں نہ خاک میں کر آنسو بہا بہا کر

مرتے ہیں ہم تو لیکن سن تیری آمد آمد
امید نے رکھا ہے اب تک جلا جلا کر

تجھ کو پتنگ اڑاتے دیکھا جو عاشقوں نے
کٹ مر کے بیٹھے اکثر گھر ور لٹا لٹا کر

صد چاک دل کا ہونا ہر صبح دم ہمارا
گل سے تو کہہ رہی ہے بلبل ہنسا ہنسا کر

آتا ہے وہ شرابی کھانے کباب دل کا
کہتا ہے جھوٹی باتیں کیا کیا چبا چبا کر

ساقی معاف رکھو گستاخیاں ہماری
بے خود کیا نشے میں تو نے پلا پلا کر

بوسے کا لکھ کے نسخہ یاقوتیٔ لبوں سے
بیمار عشق تیرا ہے بے دوا دوا کر

ہر صبح چاک ہو ہے ناصح مرا گریباں
ہر شام تو رکھے ہے ناحق سلا سلا کر

اور اک غزل محبؔ کہہ برقول میرؔ صاحب
اوروں سے دے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse