ہو رہے ہیں نت نئے قانون جاری ان دنوں

ہو رہے ہیں نت نئے قانون جاری ان دنوں
by رنجور عظیم آبادی

ہو رہے ہیں نت نئے قانون جاری ان دنوں
چل رہی ہے دل پہ عالم کے کٹاری ان دنوں

ٹیکس کی بھر مار سے ماتم ہے سارے ہند میں
کچھ سنی جاتی نہیں فریاد و زاری ان دنوں

حاکمان ہند کو اپنی ہی عشرت سے ہے کام
کون کرتا ہے ہماری غم گساری ان دنوں

مال و عزت جاہ و منصب اپنے سب جاتے رہے
رہ گئی ہے صرف ان کی یادگاری ان دنوں

آفسوں میں سر کھلے بنگالیوں کی دھوم ہے
مر رہے ہیں مارے فاقوں کے بہاری ان دنوں

علم حاصل کر کے بھی ملتی نہیں ہے نوکری
رحم کے قابل ہے بس حالت ہماری ان دنوں

ہم فدا ہوں ان پہ اور وہ ہم سے یوں بد ظن رہیں
کام آتی ہے نہیں کچھ جاں نثاری ان دنوں

جور ان کے سہتے سہتے ناک میں دم آ گیا
کیا کروں کرتا نہیں ہے بخت یاری ان دنوں

پتا پتا انڈیا کے باغ کا مرجھا گیا
کیوں ادھر آتی نہیں باد بہاری ان دنوں

ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہوں اس پٹنہ جیسے شہر میں
خلق ہے میونسپلٹی سے عاری ان دنوں

ہے یہ سطوت بات کرتے ملک برہما فتح تھا
تیغ انگلستاں پہ ہے کیا آب داری ان دنوں

خوش بیانی پر جو اپنی شاد رہتے تھے بہت
ان کی ہے رنج و الم سہنے کی باری ان دنوں

سنتے ہیں اب تک نہیں آیا حماقت سے وہ باز
سر پہ احمق کے ہے پھر جن کی سواری ان دنوں

گلعذار پارسی ہر دم گلے کا ہار ہے
لوٹتی ہے خاک پر مالن بچاری ان دنوں

فارسی بھی ہو گئی اب تو زبان مادری
قابلیت ہو گئی دونی دونی ہماری ان دنوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse