ہو کس طرح نہ ہم کو ہر دم ہوائے مطلب

ہو کس طرح نہ ہم کو ہر دم ہوائے مطلب
by نظیر اکبر آبادی

ہو کس طرح نہ ہم کو ہر دم ہوائے مطلب
دیکھا جو خوب ہم نے دنیا ہے جائے مطلب

جو گل بدن کہ آیا آغوش میں ہمارے
کچھ اور بو نہ نکلی اس میں سوائے مطلب

عشاق کی بھی الفت خالی نہیں غرض سے
مرتے ہیں یہ بھی اس پر جس سے برائے مطلب

کوئی کسی کے اوپر ہم نے فدا نہ دیکھا
منہ پر فدا ہیں لیکن دل میں فدائے مطلب

مطلب کے آشنا کو ہو کس سے آشنائی
کب آشنا کسی کا ہو آشنائے مطلب

گر بزم رقص دیکھی تو واں بھی گوش دل میں
کوئی صدا نہ آئی غیر از صدائے مطلب

زیر فلک تو ہم سے جاتی نہیں تمنا
ہاں پھر فلک پہ جاویں جب ہم سے جائے مطلب

وہ آبرو کہ جس پر کرتے ہیں جاں تصدق
اس کو بھی دے چکے ہیں اکثر برائے مطلب

جب حرف آبرو تک پہونچا نظیرؔ پھر تو
کیا کہئے ایسی جاگہ جزیہ کہ ہائے مطلب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse