ہو کچھ آسیب تو واں چاہئے گنڈا تعویذ
ہو کچھ آسیب تو واں چاہئے گنڈا تعویذ
اور جو ہو عشق کا سایہ تو کرے کیا تعویذ
دل کو جس وقت یہ جن آن کے لپٹا پھر تو
کیا کریں واں وہ جو لکھتے ہیں فلیتا تعویذ
ہم تو جب ہوش میں آویں جو کہیں سے پاویں
یار کے ہاتھ کا بازو کا گلے کا تعویذ
زور تعویذ کا چلتا تو عرب میں یارو
کیا کوئی ایک بھی مجنوں کو نہ دیتا تعویذ
کوہ کن کوہ کو کس واسطے کاٹا کرتا
دیتے غم خوار نہ کیا اس کے تئیں لا تعویذ
آخر اس کے بھی گیا دل کا دھڑکنا اس روز
قبر کا تیشے نے جب اس کے تراشا تعویذ
ہم کو بھی کتنے ہی لوگوں نے دیئے آہ نظیرؔ
پر کسی کا کوئی کچھ کام نہ آیا تعویذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |