ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت
ہو گر ایسے ہی مری شکل سے بیزار بہت
تم سلامت رہو بندے کے خریدار بہت
ہم دگر جب خفگی آئی تو جھگڑا کیا ہے
تم کو خواہندہ بہت ہم کو طرح دار بہت
آج کے رونے میں جی ڈوب چلا تھا لیکن
نالۂ دل نے رکھا مجھ کو خبردار بہت
شیخ مجھ کو نہ ڈرا گور کے اندھیارے سے
ہجر کی کاٹی ہیں میں نے تو شب تار بہت
دیکھیے اب کی تب عشق سے کیوں کر بیتے
غالب آیا ہے طبیعت پہ یہ آزار بہت
سچ کہو قتل پہ کس کے یہ کمر باندھی ہے
ان دنوں ہاتھ میں تم رکھتے ہو تلوار بہت
قائمؔ آتا ہے مجھے رحم جوانی پہ تری
مر چکے ہیں اسی آزار کے بیمار بہت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |