ہیں بہت دیکھے چاہنے والے
ہیں بہت دیکھے چاہنے والے
پر ملے کم نباہنے والے
ہم تمہارے ہوں چاہنے والے
تم اگر ہو نباہنے والے
آب شمشیر کے پیاسے ہیں
تیرے بسمل کراہنے والے
آ کے دنیا میں اے دل ناداں
کام مت کر الاہنے والے
چاہے چاہے نہ چاہے چاہے وہ
ہم تو ہیں اس کے چاہنے والے
نہیں وہ دوست بلکہ ہیں دشمن
ہیں جو تیرے سراہنے والے
مشرقیؔ بس بگاڑ دیتے ہیں
ان بتوں کو سراہنے والے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |