ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں

ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
by آرزو لکھنوی

ہیں دیس بدیس ایک گزر اور بسر میں
بے آس کو کب چین ملا ہے کسی گھر میں

چپ میں نے لگائی تو ہوا اس کا بھی چرچا
جو بھید نہ کھلتا ہو وہ کھل جاتا ہے ڈر میں

سورج کا گھمنڈ اور نہیں تارے کے برابر
ایسی ہی تو باتیں ہیں اس اندھیر نگر میں

وہ ٹل نہیں سکتی جو پہنچنے کی گھڑی ہے
چلتا رہے گلیوں میں کہ بیٹھا رہے گھر میں

ہوک اٹھی ادھر جی میں ادھر کوک اٹھی کوئل
پوچھے کوئی تو کون ادھر میں نہ ادھر میں

اے آرزوؔ آنکھوں ہی میں کٹ جاتے ہیں دن رات
کوئی بھی گھڑی چین کی ہے آٹھ پہر میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse