ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں

ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں
by تاباں عبد الحی

ہے آرزو یہ جی میں اس کی گلی میں جاویں
اور خاک اپنے سر پر من مانتی اڑاویں

شور جنوں ہے ہم کو اور فصل گل بھی آئی
اب چاک کر گریباں کیوں کر نہ بن میں جاویں

بے درد لوگ سب ہیں ہمدرد ایک بھی نہیں
یارو ہم اپنے دکھ کو جا کس کے تئیں سناویں

یہ آرزو ہماری مدت سے ہے کہ جا کر
قاتل کی تیغ کے تئیں اپنا لہو چٹاویں

خجلت سے خوں میں ڈوبے یا آگ سے لگے اٹھ
لالہ کے تئیں چمن میں گر داغ دل دکھاویں

بے اختیار سن کر محفل میں شمع رو دے
ہم بات سوز دل کی گر ٹک زباں پہ لاویں

یہاں یار اور بردار کوئی نہیں کسی کا
دنیا کے بیچ تاباںؔ ہم کس سے دل لگاویں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse