ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک

ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
by جوشش عظیم آبادی

ہے آفتاب اور مرے دل کا داغ ایک
دیکھا تو بزم عشق میں ہے یہ چراغ ایک

وحدت ہی سے ظہور ہے کثرت کا دیکھ لے
ہیں پھول سو طرح کے ولیکن ہے باغ ایک

جس دن سے وہ خیال میں تیری کمر کے ہے
عنقا کا اور دل کا مرے ہے سراغ ایک

انصاف سے بعید ہے ساقیٔ روزگار
اوروں کو جام سیکڑوں مجھ کو ایاغ ایک

لائیں کہاں سے تیری سی فکر بلند ہم
ؔجوشش نہیں ہر ایک کا دل اور دماغ ایک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse