ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا

ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا
by نظیر اکبر آبادی

ہے اب تو یہ دھن اس سے میں آنکھ لڑا لوں گا
اور چوم کے منہ اس کا سینے سے لگا لوں گا

گر تیر لگاوے گا پیہم وہ نگہ کے تو
میں اس کی جراحت کو ہنس ہنس کے اٹھا لوں گا

دل جاتے ادھر دیکھا جب میں نے نظیرؔ اس کو
روکا ارے وہ تجھ کو لے گا تو میں کیا لوں گا

واں ابرو و مژگاں کے ہیں تیغ و سناں چلتے
ٹک سوچ تو میں تجھ کو کس کس سے بچا لوں گا

پڑ جاوے گی جب شہہ وہ اے دل تو بھلا پھر میں
کیا آپ کو تھاموں گا کیا تجھ کو سنبھالوں گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse