ہے بھی اور پھر نظر نہیں آتی

ہے بھی اور پھر نظر نہیں آتی
by انور دہلوی

ہے بھی اور پھر نظر نہیں آتی
دھیان میں وہ کمر نہیں آتی

مانگتا ہوں مگر نہیں آتی
یہ اجل وقت پر نہیں آتی

تیرے کشتوں کا روز حشر حساب
غیرت او فتنہ گر نہیں آتی

طبع اپنی بھی ایک آندھی ہے
خاک اڑانی مگر نہیں آتی

ابر کس کس طرح برستا ہے
شرم اے چشم تر نہیں آتی

تم تو یوں محو ظلم ہو کہ ہمیں
آہ کرنی مگر نہیں آتی

نذر کچھ کر کے دل کو لے کہ یہ جنس
مفت اے مفت بر نہیں آتی

مختصر حال درد دل یہ ہے
موت اے چارہ گر نہیں آتی

یا رب آباد کوئے یار رہے
کہ قیامت ادھر نہیں آتی

نیند کا کام گرچہ آنا ہے
میری آنکھوں میں پر نہیں آتی

بے طرح پڑتی ہے نظر ان کی
خیر دل کی نظر نہیں آتی

بے پری نے اڑا رکھا ہے مجھے
حسرت بال و پر نہیں آتی

سب کچھ آتا ہے تو نہیں آتا
گر وفا سیم بر نہیں آتی

اپنی اس آرزو کو کیا کوسوں
آب وہاں تیغ پر نہیں آتی

جان دینی تو ہم کو آتی ہے
دل کو تسکین اگر نہیں آتی

غیر کچھ مانگتا ہے دیکھیں تو
ہے تمہیں کس قدر نہیں آتی

دل کی اپنے جگر پہ لوں لیکن
ایک کی ایک پر نہیں آتی

دشمن اور اک نگہ میں لوٹ نہ جائے
چوٹ پوری مگر نہیں آتی

تیرا کوچہ ہے مصر نظارہ
کہ پلٹ کر نظر نہیں آتی

ان کا آنا تو ایک آنا ہے
موت بھی وقت پر نہیں آتی

انورؔ اس شب کی دیکھ لو تاخیر
صبح ہوتی نظر نہیں آتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse