ہے ترے داغ سے تر سینۂ سوزاں میرا
ہے ترے داغ سے تر سینۂ سوزاں میرا
آب و رنگ آگ سے رکھتا ہے گلستاں میرا
غم کے ہاتھوں نہ رہا کچھ بھی رفو کے قابل
بسکہ سو بار ہوا چاک گریباں میرا
موج دریا کی طرح ضبط میں آ سکتا نہیں
کوئی کیوں کر کہے احوال پریشاں میرا
رو اگر دیجئے اس کو بھی تو کچھ عیب نہیں
آئنے سے بھی گیا کیا دل حیراں میرا
میں تو ظاہر نہ کروں اس کی جفا کو لیکن
چھپ سکے کیوں کہ یقیںؔ زخم نمایاں میرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |