ہے تیری ہی کائنات جی میں
ہے تیری ہی کائنات جی میں
جی تجھ سے ہے تیری ذات جی میں
تو نے کیا قتل گو بہ ذلت
سمجھا میں اسے نجات جی میں
کیوں غم یہ مجھی پہ مہرباں ہے
سب شاد ہیں ذی حیات جی میں
اس تنگ دہان کے سخن پر
یاں گزرے ہیں سو نکات جی میں
ہر دم بہ ہزار جلوۂ نو
دیکھوں ہوں تری صفات جی میں
دم آنکھوں میں آ رہا ہے جرأتؔ
گزرے ہے یہ آج رات جی میں
آ جاوے تو حال دل سنا لیں
رہ جائے نہ جی کی بات جی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |