ہے جان حزیں ایک لب روح فزا دو

ہے جان حزیں ایک لب روح فزا دو
by اسماعیل میرٹھی

ہے جان حزیں ایک لب روح فزا دو
اے کاش کہ اس ایک کی ہو جائیں دوا دو

تھا خار جگر ہجر میں تنہا غم دوری
ہیں آفت جاں وصل میں اب شرم و حیا دو

مستانہ روش کیوں نہ چلے وہ نگۂ ناز
آنکھیں ہیں کہ ہیں جام مئے ہوش ربا دو

جی تنگ ہے کیا کیجئے اور جوش بلا یہ
دل ایک ہے کیا دیجئے اور زلف دوتا دو

ہے عین عنایت جو نشاں پوچھئے میرا
یہ بھی نہیں منظور تو اپنا ہی پتا دو

کیا دام فریب اس نے بچھایا ہے دل آویز
دو آن پھنسیں اور جو ہو جائیں رہا دو

گر ناز خود آرا کو ہے یکتائی کا دعویٰ
کیوں آئینہ دیکھا کہ ہوئے جلوہ نما دو

بے باکی و شوخی بھی ہے اور شرم و حیا بھی
دو محرم اسرار ہیں تو پردہ کشا دو

دو گیسو و دو زلف بلا خیز ہیں چاروں
ہاں کاکل خم دار بھی ہیں ان کے سوا دو

وہ طرز و روش ہائے وہ انداز و ادا حیف
کیا بچتے دل و جان کجا چار کجا دو

سیریٔ نظر بھی نہ ہوئی ہائے میسر
آنکھیں جو ہوئیں چار لگے تیر قضا دو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse