ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے
مہر مکتوب عزیزان گرامی لکھیے
حرز بازوے شگرفان خود آرا کہیے
مسی آلودہ سر انگشت حسیناں لکھیے
داغ طرف جگر عاشق شیدا کہیے
حاتم دست سلیماں کے مشابہ لکھیے
سر پستان پریزاد سے مانا کہیے
اختر سوختۂ قیس سے نسبت دیجیے
خال مشکین رخ دلکش لیلا کہیے
حجر الاسود دیوار حرم کیجیے فرض
نافہ آہوے بیابان ختن کا کہیے
وضع میں اس کو اگر سمجھیے قاف تریاق
رنگ میں سبزۂ نوخیز مسیحا کہیے
صومعے میں اسے ٹھہرائیے گر مہر نماز
میکدے میں اسے خشت خم صہبا کہیے
کیوں اسے قفل در گنج محبت لکھیے
کیوں اسے نقطۂ پرکار تمنا کہیے
کیوں اسے گوہر نایاب تصور کیجیے
کیوں اسے مردمک دیدۂ عنقا کہیے
کیوں اسے تکمۂ پیراہن لیلیٰ لکھیے
کیوں اسے نقش پئے ناقۂ سلما کہیے
بندہ پرور کے کف دست کو دل کیجیے فرض
اور اس چکنی سپاری کو سویدا کہیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |