ہے عشق تو پھر اثر بھی ہوگا
ہے عشق تو پھر اثر بھی ہوگا
جتنا ہے ادھر ادھر بھی ہوگا
مانا یہ کہ دل ہے اس کا پتھر
پتھر میں نہاں شرر بھی ہوگا
ہنسنے دے اسے لحد پہ میری
اک دن وہی نوحہ گر بھی ہوگا
نالہ مرا گر کوئی شجر ہے
اک روز یہ بارور بھی ہوگا
ناداں نہ سمجھ جہان کو گھر
اس گھر سے کبھی سفر بھی ہوگا
مٹی کا ہی گھر نہ ہوگا برباد
مٹی ترے تن کا گھر بھی ہوگا
زلفوں سے جو اس کی چھائے گی رات
چہرے سے عیاں قمر بھی ہوگا
گالی سے نہ ڈر جو دیں وہ بوسہ
ہے نفع جہاں ضرر بھی ہوگا
رکھتا ہے جو پاؤں رکھ سمجھ کر
اس راہ میں نذر سر بھی ہوگا
اس بزم کی آرزو ہے بے کار
ہم سوں کا وہاں گزر بھی ہوگا
شہبازؔ میں عیب ہی نہیں کل
ایک آدھ کوئی ہنر بھی ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |