ہے وصف ترا محیط اعظم
ہے وصف ترا محیط اعظم
یاں تاب کسے شناوری کی
دی زندگی اور اس کا ساماں
کیا شان ہے بندہ پروری کی
شاہنشہ وقت ہے وہ جس نے
تیرے در کی گداگری کی
بد تر ہوں ولے کرم سے تیرے
امید قوی ہے بہتری کی
کیا آنکھ کو تل دیا کہ جس میں
وسعت ہے چرخ چنبری کی
دیکھا تو وہی ہے راہ و رہرو
پھر اس نے ہے آپ رہبری کی
ہر شکل میں تھا وہی نمودار
ہم نے ہی نگاہ سرسری کی
کیا بات ہے گر کیا ترحم
ہیہات جو تو نے داوری کی
کی بعد خزاں بہار پیدا
سوکھی ٹہنی ہری بھری کی
جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس
عزت کھو دی سخنوری کی
لکھی تھی غزل یہ آگرہ میں
پہلی تاریخ جنوری کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |