ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے

ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
by نسیم دہلوی

ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
دل تو حاضر ہے مگر پژمردہ ہے

تو ہی آتا ہے نہ آتی ہے قضا
دیکھتے ہیں جس کو وہ آزردہ ہے

جس طرح جی چاہے رکھیں میرا دل
جانتے ہیں وہ کہ مال مردہ ہے

منزل الفت میں رکھیں تو قدم
رستم و سہراب کا کیا گردہ ہے

کون سنتا ہے تمہاری اے نسیمؔ
کس کو پاس خاطر افسردہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse