یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا

یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
by شیخ قلندر بخش جرات
296686یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہواشیخ قلندر بخش جرات

یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
چمپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا

بات ہی اول تو وہ کرتا نہیں مجھ سے کبھی
اور جو بولے ہے کچھ منہ سے تو شرمایا ہوا

جا کے پھر آؤں نہ جاؤں اس گلی میں دوڑ دوڑ
پر کروں کیا میں نہیں پھرتا ہے دل آیا ہوا

بے سبب جو مجھ سے ہے وہ شعلہ خو سرگرم جنگ
میں تو حیراں ہوں کہ یہ کس کا ہے بھڑکایا ہوا

وہ کرے عزم سفر تو کیجیے دنیا سے کوچ
یہ ارادہ ہم نے بھی دل میں ہے ٹھہرایا ہوا

نوک مژگاں پر دل پژمردہ ہے یوں سرنگوں
شاخ سے جھک آئے ہے جوں پھول مرجھایا ہوا

جاؤں جاؤں کیا لگایا ہے میاں بیٹھے رہو
ہوں میں اپنی زیست سے آگے ہی اکتایا ہوا

تیری دوری سے یہ حالت ہو گئی اپنی کہ آہ
عنقریب مرگ ہر اک اپنا ہمسایہ ہوا

کیا کہیں اب عشق کیا کیا ہم سے کرتا ہے سلوک
دل پہ بے تابی کا اک پیادہ ہے بٹھلایا ہوا

ہے قلق سے دل کی یہ حالت مری اب تو کہ میں
چار سو پھرتا ہوں اپنے گھر میں گھبرایا ہوا

چپکے چپکے اپنے اپنے دل میں سب کہتے ہیں لوگ
کیا بلا وحشت ہوئی ہے اس کو یا سایا ہوا

حکم بار مجلس اب جرأتؔ کو بھی ہو جائے جی
یہ بچارہ کب سے دروازے پہ ہے آیا ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.