یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاں

یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاں
by شیخ قلندر بخش جرات
296685یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاںشیخ قلندر بخش جرات

یاد کر وہ حسن سبز اور انکھڑیاں متوالیاں
کاٹتے ہیں رو ہی رو ساون کی راتیں کالیاں

شب تصور باندھ کر اس جنبش مژگاں کا واہ
خود بخود کس کس مزے سے ہم نے چھڑیاں کھا لیاں

دیکھیں کیا ان کی لچک اس ساعد نازک بغیر
کھینچتی ہیں کیوں ہمیں کانٹوں میں گل کی ڈالیاں

کچھ نہ کچھ کر بیٹھتا ہوں بات اس کے بر خلاف
تا کسی صورت وہ دے جھنجھلا کے مجھ کو گالیاں

مہ اسیر ہالہ اس کا دیکھ بالا کیوں نہ ہو
خندہ زن ہوں مہر پر جس کی جڑاؤ بالیاں

شب کو جو اس کا تصور بندھ گیا تو ہم نے بس
اس کے مکھڑے کی بلائیں صبح تک کیا کیا لیاں

وقت اظہار وفا محفل میں اس کی جس سے آنکھ
مل گئی تو بس وہ سب باتیں اسی پر ڈھالیاں

برگ گل ان کو کہوں یا پارۂ یاقوت واہ
دیکھیو بن پان کھائے ان لبوں کی لالیاں

کوچۂ قاتل کو گر مسلخ کہوں تو ہے بجا
جب نہ تب دیکھو تو بہتی ہیں لہو کی نالیاں

خون دل آنکھوں میں بھر آتا ہے جب آتی ہے یاد
وہ مئے گل رنگ کی بھر بھر کے دینی پیالیاں

تاک جھانک اس کی کہوں کیا میں کہ طفلی میں بھی تھیں
اس کے ہاتھوں گھر کی دیواروں میں ہر سو جالیاں

کاش جرأتؔ وصل کا دن ہووے جلدی سے نصیب
ہجر کی تو کھائے جاتی ہیں یہ راتیں کالیاں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.