یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مزے
یاد ہیں سارے وہ عیشِ با فراغت کے مزے
دل ابھی بھولا نہیں، آغازِ الفت کے مزے
وہ سراپا ناز تھا ،بے گانۂ رسمِ جفا
اور مجھے حاصل تھے لطفِ بے نہایت کے مزے
حسن سے اپنے وہ غافل تھا، میں اپنے عشق سے
اب کہاں سے لاؤں وہ نا واقفیت کے مزے
میری جانب سے نگاہِ شوق کی گُستاخیاں
یار کی جانب سے آغازِ شرارت کے مزے
یاد ہیں وہ حسن و الفت کی نرالی شوخیاں
التماسِ عذر و تمہیدِ شکایت کے مزے
صحتیں لاکھوں مری بیماریِ غم پر نثار
جس میں اٹھے بار ہا ان کی عیادت کے مزے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |