یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے
یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے
خار تھے ہر آبلوں میں آبلے خاروں میں تھے
اے گلابی مست پھر منہ لگ کے اس کے اس قدر
لعل لب کے ایک دن ہم بھی پرستاروں میں تھے
لب تلک بھی آ نہیں سکتے ہیں مارے ضعف کے
آہ فوج غم کے جو جانے حولداروں میں تھے
سامنے کل خوش نگاہوں کے جو آیا مر گیا
دیکھا ٹک کیا ہی جواہر ان کی ترواروں میں تھے
میرے اس کے درمیاں حرف آیا جب انصاف کا
پھر گئے اک مرتبہ جتنے طرف داروں میں تھے
نالہ و آہ و فغاں درد و الم سوز و گداز
آہ کیسے کیسے ؔجوشش اپنے غم خواروں میں تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |