یار روٹھا ہے ہم سیں منتا نہیں
یار روٹھا ہے ہم سیں منتا نہیں
دل کی گرمی سیں کچھ او پہنتا نہیں
تجھ کو گہنا پہنا کے میں دیکھوں
حیف ہے یہ بناؤ بنتا نہیں
جن نیں اس نوجوان کو برتا
وہ کسی اور کو برتتا نہیں
کوفت چہرے پہ شب کی ظاہر ہے
کیوں کے کہیے کہ کچھ چنتا نہیں
شوق نہیں مجھ کوں کچھ مشیخت کا
جال مکڑی کی طرح تنتا نہیں
تیرے تن کا خمیر اور ہی ہے
آب و گل اس صفا سیں سنتا نہیں
جیو دنیا بھی کام ہے لیکن
آبروؔ بن کوئی کرنتا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |