یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا

یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
by منتظر لکھنوی
331194یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوامنتظر لکھنوی

یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
کبھی اتنا میں پشیماں نہ ہوا تھا سو ہوا

واقعی جائے ندامت تو یہی ہے کہ کبھو
مجھ سے جو کام عزیزاں نہ ہوا تھا سو ہوا

تجھ کو دیکھے کوئی اور اس سے خفا ہونا ہائے
کیا کروں اے دل ناداں نہ ہوا تھا سو ہوا

کر کے نظارہ تن صاف کا اس کے ہیہات
شکل آئینہ جو حیراں نہ ہوا تھا سو ہوا

ہنستے ہنستے نہ سنا تھا کہیں ہو خانہ خراب
رؤو اب دیدۂ گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

بال وے بکھرے ہوئے دیکھ کے رخ پر اس کے
کبھو کافر جو مسلماں نہ ہوا تھا سو ہوا

منتظرؔ اس دل بیتاب کے ہاتھوں شب وصل
کیا کہیں تم سے میاں جو نہ ہوا تھا سو ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.