یار کا دھیان ہم نہ چھوڑیں گے

یار کا دھیان ہم نہ چھوڑیں گے
by میر حسن دہلوی

یار کا دھیان ہم نہ چھوڑیں گے
اپنی یہ آن ہم نہ چھوڑیں گے

جب تلک دم میں ہے ہمارے دم
تجھ کو اے جان ہم نہ چھوڑیں گے

تیرے ہاتھوں سے اے جنوں ثابت
یہ گریبان ہم نہ چھوڑیں گے

ہے بڑا کفر ترک عشق بتاں
اپنا ایمان ہم نہ چھوڑیں گے

بعد مجنوں کے شور سے خالی
یہ بیابان ہم نہ چھوڑیں گے

دل میں اور ہم میں ہے یہ قول و قرار
اس کو ہر آن ہم نہ چھوڑیں گے

دل نہ چھوڑے گا تیرا دامن اور
دل کا دامان ہم نہ چھوڑیں گے

بن لئے بوسہ آج تو تجھ کو
مان مت مان ہم نہ چھوڑیں گے

ہے حسنؔ واں یہی جو بے قرنی
کب تلک شان ہم نہ چھوڑیں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse