یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے
گل تر کو ہوس خار نہ ہونے پائے
اس میں در پردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ
شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے
فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا
بخت خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے
ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں
آبلے ہم سخن خار نہ ہونے پائے
باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے
سبزہ بیگانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے
جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبئ بزم
بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے
آپ جاتے تو ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ
حال دل دیکھیے اظہار نہ ہونے پائے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |