یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا

یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا
by جمیلہ خدا بخش

یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا
طور سینا پر وہی جلوہ نما تھی میں نہ تھا

گنبد افلاک پر جس کا ہوا اکثر گزر
وہ دل بیمار غم کی اک دعا تھی میں نہ تھا

ہر طرف تھی عالم امکاں میں جو پھیلی ہوئی
میرے اسرار حقیقت کی ضیا تھی میں نہ تھا

مثل بوئے گل ترے کوچہ میں تھا جس کا گزر
اے صنم وہ میری جان مبتلا تھی میں نہ تھا

بوستاں میں طالب دیدار تھی جو آپ کی
وہ گل نرگس کی چشم با ضیا تھی میں نہ تھا

بعد مردن قبر میں مجھ کو سلا کر یہ کہا
درد تھا بیتابیاں تھیں اور قضا تھی میں نہ تھا

اک جھلک دکھلا کے اپنی کس ادا سے کہہ گیا
جس کو دیکھا وہ بھی شان کبریا تھی میں نہ تھا

جس نے چوما وقت پامالی قدوم ناز کو
خون دل با شوخئ رنگ حنا تھی میں نہ تھا

درگزر کر آئنے سے آپ نے موڑا ہے منہ
اس میں میری حسرت حیرت فزا تھی میں نہ تھا

زاری و شیون ہماری کب سنی ہیں آپ نے
بوستاں میں بلبل نغمہ سرا تھی میں نہ تھا

اڑ کے جو پہنچی صبا کے ساتھ گلیوں میں تری
مشت خاک کشتۂ تیغ ادا تھی میں نہ تھا

دیکھ کر ان کو جو میں فرط مسرت سے مرا
وہ لگے کہنے کہ یہ اس کی قضا تھی میں نہ تھا

تھا میں تصویر خیالی ہستئ موہوم میں
وہ بھی شان عشق شاہ دو سرا تھی میں نہ تھا

اے جمیلہؔ بوستان عشق میں وقت سحر
نکہت گل سی جو پہنچی وہ صبا تھی میں نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse