یار کے تیر کا نشانہ ہوں

یار کے تیر کا نشانہ ہوں
by جوشش عظیم آبادی

یار کے تیر کا نشانہ ہوں
اپنے طالع کا میں دوانا ہوں

ناتوانی بھی دیکھ کر مجھ کو
لگی رونے میں وہ توانا ہوں

دیکھ دیکھ اس کی زلف ابتر کو
دل یہی چاہتا ہے شانہ ہوں

مو پریشاں ہے چشم زار و طرار
شجر بید ہی سے مانا ہوں

اس سے چشم وفا رکھوں ؔجوشش
میں بھی تیری طرح دوانا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse