یاس و امید و شادی و غم نے دھوم اٹھائی سینہ میں
یاس و امید و شادی و غم نے دھوم اٹھائی سینہ میں
خوب مجھے ہے آج دھما دھم مار کٹائی سینہ میں
دید کیا جو وادئ مجنوں ہم نے دھن میں وحشت کے
شکل مجسم ہو کے جنوں کی آن سمائی سینہ میں
شیخ و برہمن دیر و حرم میں ڈھونڈھتے ہو کیا لا حاصل
موند کے آنکھیں دیکھو تو ہے ساری خدائی سینہ میں
قہر کیا یہ تم نے صاحب آنکھ لڑانا آفت تھا
جھٹ پٹ دل کو پھونک دیا اور آگ لگائی سینہ میں
حضرت دل تو کب کے سدھارے خوب جو ڈھونڈا انشاؔ نے
ایک دھواں سا آہ کا اٹھا خاک نہ پائی سینہ میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |