یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے
یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے
اک زبردست کے ہیں کھینچ کے بلوائے ہوئے
آتے ہی روئے تو آگے کو نہ روویں کیوں کر
ہم تو ہیں روز تولد ہی کے دکھ پائے ہوئے
دیکھ کر غیر کے ساتھ اس کو کہا یوں ہم نے
ہو تو تم چاند پر اس وقت ہو گہنائے ہوئے
کل جو گلشن میں گئے ہم تو عجب شکل سے آہ
ہجر کے مارے ہوئے جی سے بتنگ آئے ہوئے
گل جو تازے تھے کھلے کہتے تھے شبنم سے یہ بات
دیکھ کر ان کو جو وہ پھول تھے کمہلائے ہوئے
آج ہیں شاخ پہ جس طور سے پژمردہ نظیرؔ
کل اسی طرح سے ہم ہوویں گے مرجھائے ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |