یاں سدا نیش بلا وقف جگر ریشی ہے
یاں سدا نیش بلا وقف جگر ریشی ہے
کیجے کیا جان مری عالم درویشی ہے
اپنے مذہب میں قرابت نہیں اجداد کی شرط
تجھ سے نسبت ہے جسے اس سے ہمیں خویشی ہے
مجھ سے اک خستہ سے ناحق یہ شب و روز خلش
اے جفا پیشہ یہ کیا نحو ستم کیشی ہے
بات ہے شہرہ نصیبی کی نرالی ورنہ
مجھ پہ کس چیز میں مجنوں کے تئیں بیشی ہے
گوہر اشک کو نشمردہ تو قائمؔ نہ بکھیر
آدمی ہے و میاں عاقبت اندیشی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |