یاں سے پیغام جو لے کر گئے معقول گئے
یاں سے پیغام جو لے کر گئے معقول گئے
اس کی باتوں میں لگے ایسے کہ سب بھول گئے
تو تو معشوق ہے تجھ کو تو بہت عاشق ہیں
غم انہوں کا ہے جو وہ جان سے نرمول گئے
بے کلی اپنی کا اظہار تو کرتا نہیں میں
گل رخاں دیکھ کے تم مجھ کو عبث بھول گئے
کیونکہ کھٹکا نہ رہے سب کو ادھر جانے کا
آہ کیا کیا نہ اسی خاک میں مقبول گئے
اپنی نیکی و بدی چھوڑ گئے دنیا میں
گرچہ دونوں نہ رہے قاتل و مقتول گئے
زلف میں اس کی بہت رہ کے نہ اترائیو دل
مجھ سے کتنے ہی مری جان یہاں جھول گئے
پہلی باتوں کا محبت کی حسنؔ ذکر نہ کر
بس وہ دستور گئے اور وہ معمول گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |