یا رب کہیں سے گرمئ بازار بھیج دے
یا رب کہیں سے گرمئ بازار بھیج دے
دل بیچتا ہوں کوئی خریدار بھیج دے
اپنی بساط میں تو یہی دل ہے میری جاں
لیتا نہیں تو کیا کروں اے یار بھیج دے
دعویٰ جو برشگال کو آنکھوں سے ہے مری
ایسا کوئی جو ابر گہربار بھیج دے
دیتے ہیں عقد حسن میں عاشق عروس جاں
آتا نہیں جو آپ تو تلوار بھیج دے
سوداؔ سے غم گسار کا تھا دل یہ تیں لیا
اس کے عوض بھلا کوئی غم خوار بھیج دے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |