یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں
یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں
یا اپنے گھر سے بن بن یہ خوبرو نہ نکلیں
ہوتی نہیں تسلی دل کو ہمارے جب تک
دو چار بار اس کے کوچہ سے ہو نہ نکلیں
دل ڈھونڈھنے چلے ہیں کوچہ میں تیرے اپنا
ڈرتے ہیں آپ کو بھی ہم واں سے کھو نہ نکلیں
کوئی بھی دن نہ گزرا ایسا کہ اس گلی سے
زخمی ہو مبتلا ہو جو ایک دو نہ نکلیں
دل اور جگر لہو ہو آنکھوں تلک تو پہنچے
کیا حکم ہے اب آگے نکلیں کہو نہ نکلیں
بستی میں تو دل اپنا لگتا نہیں کہو پھر
صحرا کی طرف کیوں کر اے ناصحو نہ نکلیں
گر وہ نقاب اٹھا دے چہرے سے تو حسنؔ پھر
کچھ غم نہیں مہ و مہر عالم میں گو نہ نکلیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |